21 دسمبر 2025 - 02:59
تحفظِ نسواں کا افسانہ؛ زن کُشی میں مغرب کا منفرد ریکارڈ + تصاویر

مغربی کئی دہائیوں سے خود کو خواتین کے لئے محفوظ ترین جغرافئے کے طور پر متعارف کراتا رہا ہے؛ احقوقِ نسواں اور صنفی مساوات کا ایک چمکدار شوکیس۔ لیکن اس دلکش اگواڑے کے پیچھے، ایک تاریک حقیقت چھپی ہوئی ہے: ساختی اور بار بار دہرایا جانا والا قتلِ نسواں (زن کُشی [Femicide])، امریکہ اور یورپ میں ایک دائمی بحران ہے جو نہ تو غیر معمولی ہے اور نہ ہی حادثاتی۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || جنوری 2025 میں، مقامی امریکی میڈیا نے پنسلوانیا میں ایک 34 سالہ خاتون کے قتل کی خبر دی۔ ہے۔ اس خاتون نے اپنی موت سے پہلے بار بار اپنے ساتھی کے تشدد کی اطلاع پولیس کو دی تھی۔ ایک تعلق ختم کا فیصلہ بھی سنایا گیا تھا، ایک کیس کھول دیا گیا تھا، لیکن پولیس نے اعلان کیا تھا کہ "فوری خطرے کی کوئی علامت نہیں ہے." چند ہفتے بعد، اسی شخص نے اسے اس کے گھر میں گولی مار کر قتل کر دیا۔

تحفظِ نسواں کا افسانہ؛ زن کُشی میں مغرب کا منفرد ریکارڈ + تصاویر

تقریباً ایک ہی وقت میں اسپین میں ایک خاتون کو اس کے سابق شوہر نے قتل کر دیا۔ ایک شخص جس کا اسے دھمکیاں دینے کا ریکارڈ تھا اور وہ عدالتی نگرانی میں بھی تھا۔ یہ دو کیسز اس لئے سرخیاں بن گئے کیونکہ یہ میڈیا میں آ گئے؛ اس لئے نہیں کہ یہ غیر معمولی تھے۔ یہ 2025 کے پہلے ہفتوں میں مغرب میں زن کُشی [Femicide] کے درجنوں ریکارڈ شدہ واقعات میں سے صرف دو ہیں۔ ان ممالک میں قتلِ نسواں کا کوئی "ناخوشگوار والا واقعہ" نہیں ہے بلکہ ایک ایسی آفت ہے جس کے بارے میں نظام پہلے سے جانتا ہے اور اس پر قابو پانے میں عملی طور پر بے بس ہے۔

مغرب میں خواتین کی حفاظت کا افسانہ

مغرب برسوں سے اپنے ہاں "خواتین کے تحفظ" کو اپنی تہذیبی کامیابی کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ لیکن شماریاتی حقائق کے مطالعے سے ایک گہرا تضاد عیاں ہو جاتا ہے: بہت سی خواتین کے لئے سب سے خطرناک جگہ گلی یا عوامی جگہ نہیں بلکہ گھر ہے۔

ریاستہائے متحدہ اور یورپ میں متعدد مطالعات و تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ 70 فیصد سے زیادہ خواتین ـ جو ہلاکت خیز تشدد کا شکار ہیں ـ قتل ہونے سے پہلے انتباہی علامات کا تجربہ کرتی ہیں: دھمکیاں، مار پیٹ، تعاقب، معاشی کنٹرول، نفسیاتی استحصال وغیرہ۔ حکومتی نظآمات ان علامات سے آگاہ رہے ہیں۔ پولیس کو اطلاع دی گئی ہے، عدالتوں میں مقدمات دائر کئے گئے ہیں، سماجی خدمات کو مطلع کیا گیا ہے۔ لیکن مداخلت دیر سے یا پھر صرف دکھاوے کے لئے ہوتی ہے۔ گھر، جسے سرکاری اشتہارات میں ایک محفوظ جگہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، عملی طور پر لاکھوں خواتین کے لئے جرم کا محل وقوع بنا ہؤا ہے۔ ایک جرم جو برسوں سے معمول بنا ہؤا ہے۔

تحفظِ نسواں کا افسانہ؛ زن کُشی میں مغرب کا منفرد ریکارڈ + تصاویر

اعداد و شمار جو سرکاری بیانیہ کو منہدم کرتے ہیں۔

امریکی وفاقی مراکز (CDC اور FBI) ​​کے اعداد و شمار کے مطابق اس ملک میں ہر سال تقریباً 4000 سے 5000 خواتین کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ ان میں سے 55% سے زیادہ قتلوں کا تعلق براہ راست ساتھیوں [بی ایفس] کے تشدد سے ہے۔ قتل کا شکار ہونے والے مردوں کی شرح اس سے بہت کم ہے۔ سیدھے الفاظ میں: اگر امریکہ میں کسی عورت کو قتل کیا جاتا ہے، تو بہت زیادہ امکان ہے کہ اس کا قاتل اس کا شوہر، منگیتر یا سابق ساتھی ہو۔

قتلِ نسواں یورپی یونین کی عملداری میں

یورپی یونین میں بھی یہ تصویر کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یورپی کمیشن اور قومی شماریاتی اداروں کی سرکاری رپورٹس بتاتی ہیں کہ ہر ہفتے اوسطاً 50 سے زائد خواتین ہلاکت خیز گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ فرانس، جرمنی، اٹلی اور اسپین جیسے ممالک میں قتل کی رائج ترین شکلوں میں سے ایک قتلِ نسواں ہے۔ صرف فرانس میں ہر سال ساتھی مردوں کے ہاتھوں، خواتین کے قتل کے 100 سے زیادہ واقعات ریکارڈ کئے جاتے ہیں۔

اور ہاں! یہ صرف "سرکاری اعدادوشمار" ہیں۔ یعنی وہ ڈیٹا جسے حکومتیں شائع کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ بہت سے قتل ـ خاص طور پر تارکین وطن کمیونٹیز، نچلے طبقوں یا پسماندہ علاقوں میں، ـ کبھی بھی "قتلِ نسواں" کے طور پر ریکارڈ نہیں کیے جاتے اور "قتل" کے عام واقعات کے زمرے میں گم ہو جاتے ہیں۔ یہ شماریاتی رازداری بذات خود 'مسئلے کا حصہ' ہے۔

سٹمز کی ساختی ناکام (Structural Failure)

بہت سے مغربی ممالک میں خواتین کی پناہ گاہیں دائمی طور پر بجٹ کی قلت سے دوچار ہیں۔ امریکہ میں، اس قسم کے زیادہ تر مراکز کا انتظام این جی اوز کے ہاتھوں میں ہے جو محدود سرکاری امداد یا نجی عطیات پر انحصار کرتے ہیں۔ یورپ میں، معاشی بحرانوں کے بعد کفایت شعاری کی پالیسیوں نے سماجی خدمات کو سب سے پہلا دھچکا پہنچایا، جس میں تشدد اور زیادتی کا شکار خواتین کے لئے خدمات بھی شامل ہیں۔

رابطہ منقطع کرنے والے احکامات، جنہیں بظاہر نجات کا ذریعہ بننا تھا، عملی طور پر ناقابل نفاذ ہیں۔ خواتین کے قتل کے بہت سے معاملات میں، قاتل نے پہلے ان احکامات کی خلاف ورزی کی تھی، لیکن انتظامی، عدالتی یا نگران سسٹم کا ردعمل یا تو بہت سست، یا بنیادی طور پر غیر مؤثر رہا ہے۔ مغرب میں سپورٹ سسٹمز کی توجہ تشدد روکنے کے بجائے اسے ریکارڈ کرنے کے پر مرکوز ہوتی ہے۔

تحفظِ نسواں کا افسانہ؛ زن کُشی میں مغرب کا منفرد ریکارڈ + تصاویر

جب تشدد ایک "نجی معاملہ" بن جاتا ہے

خواتین کے قتل کو روکنے میں مغرب کی ناکامی کے اہم ستونوں میں سے ایک گھریلو تشدد کے بارے میں، 'نظریاتی نقطہ نظر' ہے۔ پولیس اور عدلیہ جیسے ادارے اب بھی تشدد کی تعریف "خاندانی تنازعات" یا "نجی معاملات" کے حوالے سے، کرتے ہیں۔

یہ محض ثقافتی نہیں بلکہ 'گہرا سیاسی' نقطہ نظر ہے. جب تشدد کو نجی مسئلہ سمجھا جاتا ہے، تو ریاست براہ راست ذمہ داری سے پہلو تہی کر سکتی ہے؛ اور یوں عورت تنہا رہ جاتی ہے اور حکمران نظام خاموش تماشائی بنا رہتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں مغربی لبرل ازم، اپنے تمام تر حیلہ بازیوں، فریبکاریوں اور مکاریوں کے باوجود، ساختی بے بسی کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے۔

آتشیں اسلحہ اور قتلِ نسواں

امریکہ میں، آتشیں اسلحے تک وسیع پیمانے پر رسائی خواتین کے قتل (Femicide) میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پرتشدد تعلقات میں آتشیں ہتھیاروں کی موجودگی سے عورت کے قتل ہونے کے امکانات پانچ گنا بڑھ جاتے ہیں۔ امریکہ میں قتلِ نسواں کے آدھے سے زیادہ واقعات کا ارتکاب آتشیں ہتھیاروں سے ہوتا ہے۔

یہ حقیقت ان پالیسیوں کا براہ راست نتیجہ ہے جنہوں نے "بندوق رکھنے کے حق" کو "خواتین کے حقِّ حیات" پر مقدّم رکھا ہے۔ طاقتور گن لابیز (The Gun Lobbies) نے برسوں سے قوانین میں اصلاحات کو روک رکھا ہے، چاہے متاثرین خواتین ہی کیوں نہ ہوں! یہاں، سرمایہ داری کی منطق مکمل طور پر ننگی ہو جاتی ہے: "بندوق کمپنیوں کا منافع خواتین کی زندگیوں سے زیادہ اہم ہے۔"

تحفظِ نسواں کا افسانہ؛ زن کُشی میں مغرب کا منفرد ریکارڈ + تصاویر

Femicide اور جدید سرمایہ داری

قتلِ نسواں تجزیہ اس کے معاشی تناظر کو مدنظر رکھے بغیر، ممکن نہیں ہے۔ ملازمت کا عدم تحفظ، روزی روٹی کا دباؤ، سپورٹ نیٹ ورکس کی شکست و ریخت، اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات تشدد میں اضافہ کرتی ہے۔ لیکن ان جڑوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے، 'جدید سرمایہ دارانہ نظام' تشدد' کا درجہ [قاتل کے] "انفرادی بگاڑ" تک کم کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔

قاتل کو ایک مریض کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، نہ کہ اس ڈھانچے کی پیداوار طور پر، جو تشدد کو جنم دیتا ہے۔ یہ تخفیف پسندی خالصتاً نظریاتی ہے اور نظام کو اپنی ذمہ داری سے انکار کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس طرح سماجی جرائم کے سلسلے میں یہ تخفیفیت (Reductionism) بالکل نظریاتی (Ideological) ہے اور حکمران نظامات کو اجازت دیتی ہے کہ اپنی ذمہ داریاں قبول کرنے سے انکار کریں۔

'منتخب' 'انسانی حقوق' یا 'انسانی حقوق میں بھی امتیاز'، (Discrimination in human rights) اور سامراجی منطق

وہی ریاستیں جو حقوقِ نسواں کے بہانے پر دوسرے ممالک پر پابندیاں عائد کرتی ہیں یا سیاسی دباؤ ڈالتی ہیں وہ اپنی سرحدوں کے اندر ایک بڑا اور حل طلب بحران (Unresolved Crisis) کا سامنا کر رہی ہیں۔ خواتین کے قتل (Femicide) کو مغرب میں ایک گھریلو اور معمولی مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لیکن غیر مغربی دنیا میں خواتین کے خلاف تشدد ان ہی ریاستوں کی مداخلت کا 'جائز ذریعہ' بنا دیا جاتا ہے۔

یہ دوہرا پن حقوقِ نسواں کے بیانئے کی سامراجی نوعیت کو عیاں کرتا ہے: حقوقِ نسواں صرف اس وقت اہمیت رکھتے ہیں جب تک کہ یہ مغربی ممالک کی خارجہ پالیسی کا آلہ اور اوزار کا کردار ادا کرسکتے ہوں۔ جب اندرونی ذمہ داری کی نوبت آتی ہے تو ان حقوق کو دیوار سے لگایا جاتا اور نظرانداز کرکے 'ایک معمولی واقعے' کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور نجی یا خاندانی مسئلہ بنایا جاتا ہے۔

تحفظِ نسواں کا افسانہ؛ زن کُشی میں مغرب کا منفرد ریکارڈ + تصاویر

ذرائع ابلاغ موت کو کیونکر معمولی بنا دیتے ہیں؟

مغرب کے مرکزی دھارے کے ذرائع خواتین کے قتل عام کی 'معمول سازی' (Normalization) میں کلیدی کردار ادا کرتے ہے۔ "جذباتی اختلاف پر قتل" یا "جذباتی جرم" جیسی اصطلاحات کا استعمال تشدد کو مغربی معاشروں کے ہاں کا 'معمول' بنا دیتا ہے۔ ان داستانوں میں، قاتل اکثر کہانی کا مرکز ہوتا ہے اور قتل ہونے والی خاتون کو اعداد و شمار کے بیچ ایک "عدد" تک گھٹا دیا جاتا ہے۔

معاشی، قانونی اور سیاسی ڈھانچے کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے؛ کیونکہ ان پر بحث و مباحثہ نظام کی قانونی حیثیت (یا قانونیت Legitimacy) پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔

یہ بحران جاری کیوں ہے؟

جواب واضح ہے: کیوں کہ فیمیسائیڈ کا سماجی بحران ابھی تک 'سیاسی بحران' پر منتج نہیں ہؤا ہے۔ جب تک خواتین کی موت پر حکومتوں کو حقیقی قیمت نہ چکانا پڑے گی، اس حوالے سے بنیادی تبدیلی نہیں آئے گی۔ مغرب الفاظ میں عورتوں کا محافظ ہے۔ عملی طور پر، موجودہ امتنیازی ترتیب کا کا محافظ۔

بالآخر، مغرب میں قتلِ نسواں دعوے اور حقیقت کے درمیان گہرے فرق کو نمایاں کرتا ہے۔ انسانی حقوق کی چمکیلی کھڑکی کے پیچھے، تشدد کا مغربی سلسلہ جاری ہے جو دائمی، ساختی اور حل طلب ہے۔ سامراج مخالف تنقید یہاں سے شروع ہوتی ہے: ایک ایسی تہذیب کو بے نقاب کرنا جس نے اپنی خواتین کی زندگیوں کی ضمانت بھی فراہم نہیں کی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: فاطمہ کاوند

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha